جب تک تیرے پیار میں رہا
میں غموں کے حصار میں رہا
میرا زمانے میں کوئی نہ تھا رقیب
جب تک تو اعتبار میں رہا
وہ جا کر پھر لوٹا نہیں کبھی
میں عمر بھر انتظار میں رہا
مجھ سے چھین کر میری پہچان
خود وہ ستمگر سنگھار میں رہا
مجھے اگرچہ اس نے بھلا دیا لیکن
وہ ہر لمحہ میرے شمار میں رہا
وہ میری زندگی میں بکھیر کر کانٹے
اپنی من مرضی کی بہار میں رہا
امتیاز چل یار کسی صحرا کی طرف
اب سکوں نہیں در و دیوار میں رہا