مجھے انجام سے ڈر لگتا ہے
سرمئی شام سے ڈر لگتا ہے
دشتِ تنہائی میں دیکھا جو کبھی ماضی کو
تری یادوں سے بھرے جام سے ڈر لگتا ہے
ترے ساتھ بتائے ہوئے ہر اک دن
تجھ سے عہدِ وفا کی ہر اک شام سے ڈر لگتا ہے
میرے آنگن میں بہت پھول محبت کے کھلے
مجھے بس محبت کے انجام سے ڈر لگتا ہے
کوئی کہہ دے نہ یہ احسن تو وہی احسن ہے
اب بتاتے ہوئے اپنے نام سے ڈر لگتا ہے