مجھے تم چھوڑ سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillیہ بندھن توڑ سکتی ہو
مجھے تم چھوڑ سکتی ہو
ہمارے درمیاں جاناں
رواجوں کی ہیں دیواریں
کہ جیسے آگ کا دریا
کہ جیسے ننگی تلواریں
یہ گل کھلنے نہیں دیں گی
ہمیں ملنے نہیں دیں گی
تمہارے سامنے جاناں
رخ فردا ہویدا ہے
میرے دامن میں ہے ہی کیا
سوائے چند خوابوں کے
نہیں ہے ماسوا اس میں
فقط سوکھے گلابوں کے
یہ دیکھو بھیگتا دامن
اسے جنجھوڑ سکتی ہو
یہ بندھن توڑ سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوائیں تیز ہیں جاناں
زہر آمیز ہیں جاناں
ہیں ننگے پاؤں چاہت کے
ڈری سہمی محبت کے
تپے صحرا کی وحشت ہے
تیری نازک طبیعت ہے
مہاریں وقت کی جاناں
ہیں تمہارے ہی ہاتھوں میں
انہیں تم موڑ سکتی ہو
یہ بندھن توڑ سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ قصہ ہے عذابوں کا
بہت ظالم چنابوں کا
حقیقت ہر اجاگر ہے
سمے کا بہتا ساگر ہے
تہمارے ہاتھ میں جاناں
یہ اک کچی سی گاگر ہے
بجائے ڈوب جانے کے
کنارے پر ہی جاں میری
یہ گاگر پھوڑ سکتی ہو
مجھے تم چھوڑ سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






