مجھے دھوکہ میرا دل جانی دے گیا
خشک آنکھوں کووہ پانی دے گیا
نہ جانے کیسے ڈھونڈوں گے اسے
مجھے تصویر وہ پرانی دے گیا
کسی کو کیسے یقیں آئے ہماری محبت کا
مجھے کوئی نہ وہ نشانی دے گیا
اسے کتنی فکر تھی میری تنہائی کی
دل بہلانے کو شاعری بھی پرانی دے گیا
پیار سے جسے بکرو کہتی تھی میں
وہی ظالم میری قربانی دے گیا
دعا ہے کہ وہ سدا خوش رہے اصغر
جاتے جاتے نہ کوئی شام سہانی دے گیا