چھو کر ہونٹ میرے ان کو گلاب کر جاؤ
دل بے چین کو کچھ اور بیتاب کر جاؤ
کشتی جان اگر تم کو اچھی نہیں لگتی کنارے پر
کھول دو بادباں اس کے تظر گرداب کر جاؤ
نیند کو ترس رہی ہیں اک مدت سے میری آنکھیں
کسی شب آؤ اور انہیں خواب خواب کر جاؤ
مدت سے تو اب ساون میں بھی بارش نہیں ہوتی
عثمان تم دریا ہو رُخ بدلو، مجھے سیراب کر جاؤ