مجھے شبنم کی نیت پہ کوئی شک تو نہیں لیکن
Poet: سید عبدالستار مفتی By: سید عبدالستار مفتی, Samundri Faisalabadسحر نے ظلمتِ شب کی قسم کھائی تو کیا ہوگا
یہ ناگن خونِ انساں پی کے لہرائی تو کیا ہوگا
دباؤ ذہن پر دیکر ذرا سوچو شفق پارو
خِزاں کے روپ میں ڈھل کر بہار آئی تو کیا ہوگا
تصور شورِ محشر کا تری لَے سے نمایاں ہے
نہ جاگی خفتہ ارمانوں کی شہنائی تو کیا ہوگا
دکھوں کی یورشیں خیزاں ، حوادث کی بپا آندھی
ہؤا جو یوں علاجِ زخم ِ تنہائی تو کیا ہوگا
کسی ے خوار کے احساس کی شیشہ نوازی بھی
مزاجِ گردشِ دوراں سے ٹکرائی تو کیا ہوگا
ابھی تو اور بھی ہم کو اجالوں کی ضرورت ہے
گنوادی دیدہ ء عرفاں نے بینائی تو کیا ہوگا
اِرادے بھی چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں بے شک
کنارے پہ جو موجِ غم ابھر آئی تو کیا ہوگا
مجھے شبنم کی نیت پہ کوئی شک تو نہیں لیکن
اُڑا کر لے گئی پھولوں کی رعنائی تو کیا ہوگا
شگوفے میرے نغموں کا بڑا پرچار کرتے ہیں
صبا نے بھی اگر میری غزل گائی تو کیا ہوگا
خدانخواستہ مفتی بصیرت کی نگاہوں نے
خرد کو عشق کی پوشاک پہنائی تو کیا ہوگا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






