مجھے عاشقی اشکوں کے بھرم سے ملی تھی
پھر شاعری دکھ کے قلم سے لکھی تھی
میرے بلانے پر بھی فضائیں کہاں لوٹیں
ہر موسم کو تو بے رخی ان سے ملی تھی
رنجشوں سے مرہم نہیں ہوتا اب تک
درزوں کو بھی آوارگی غم سے ملی تھی
مجھے موت بخشنے والے تم کہاں جاؤ گے
ہم کو تو زندگی تیرے دم سے ملی تھی
تنہائی کی بانہوں نے جب گھیر لیا مجھے
تب کتنی خاموشی اپنے کرم کو ملی تھی
یاد کی شب میں سنتوش سلگتے سوچا کہ
دیوانوں کو آسودگی بہت کم ملی تھی