مجھے پیار ہوا تھا اقرار ہوا تھا
Poet: کیفی خلیل By: عاقب عرفان, کراچیکہانی سُنوہاں، زبانی سُنو
مجھے پیارہوا تھا، اِقرار ہوا تھا
کہانی سُنوہاں، زبانی سُنو
مجھے پیارہوا تھا، اِقرار ہوا تھا
مجھے پیارہوا تھا، اِقرار ہوا تھا
دیوانہ ہوا، مستانہ ہوا
تیری چاہتمیں کتنا فسانہ ہوا
تیرے آنے کی خوشبو، تیرے جانے کا منظر
تجھے ملناپڑے گا، اب زمانہ ہوا
صدائیں سُنو ہاں، جفائیں سُنو
مجھے پیارہوا تھا، اِقرار ہوا تھا
مجھے پیارہوا تھا، اِقرار ہوا تھا
ہے تمنا ہمیں، تمہیں دلہن بنائیں
تیرے ہاتھوں پہ مہندی اپنے نام کی سجائیں
تیری لے لیں بلائیں، تیرے صدقے اُتاریں
ہے تمنا ہمیں، تمہیں اپنا بنائیں
نہیں مشکل وفا، زرا دیکھو یہاں
تیری آنکھوں میں بستا ہے میرا جہاں
کبھی سُن تو زرا جو میں کہہ نہ سکا
میری دنیاتمہی ہو، تمہی آسرا
دعائیں سُنو، سزائیں سُنو
مجھے پیارہوا تھا، اِقرار ہوا تھا
کہانی سُنوہاں، زبانی سُنو
مجھے پیارہوا تھا، اِقرار ہوا تھا
مجھے پیارہوا تھا
پیار ہوا تھا
پیار ہوا تھا
پیار ہوا تھا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






