مجھے ہوتا ہے کبھی کبھار غم زمانے کو دیکھ کر
ہو جاتا ہے دل و جاں نم زمانے کو دیکھ کر
وحشیت ہی وحشیت ہے ہر سُو اب تو
سوچتا ہوں کیا انسان ہیں ہم زمانے کو دیکھ کر
حیوان ہیں ہم سے کمتر مجھے خود پہ ناز تھا
توٹے ہیں مگر آج سارے بھرم زمانے کو دیکھ کر
میرے گھر میں آئے روشنی جلے کسی کا گھر تو کیا
سیکھے میں نے کیا کیا جرم زمانے کو دیکھ کر
بہتر تھا اس سے کہ ہوتے صرف فرشتے ہی
خدائی بھی آج ہوئی ہے پُرنم زمانے کو دیکھ کر
ہر ہاتھ ہے خون آلودہ ، ہر خیال مجرم ہے
نہیں آتی مگر ہمیں کوئی شرم زمانے کو دیکھ کر
ہر کوئی رو رہا ہے دوسروں کی خوشیوں پہ
نہالؔ لگا ہے عجیب سا ماتم زمانے کو دیکھ کر