چاہتوں کو اپنی نہ یوں چھپاو
ہے محبت گر تو سامنے آو
جگر چاہئیے وفا نبھانے کو
گر قدم راہ وفا میں بڑھاو
زخم دیں گے زمانے والے
طبیب کوئی ہو تو بلاو
وصل اور محبت کا بیر ہے
دل کو اپنے یہ نکتہ سمجھاو
ٹہر جاتی ہے زندگی وہیں
چہرہ گر ہجر کا اس کو دکھاو
وہ تو سانسوں میں ہے بسا
کہتے ہو جس کو بھول جاو
یاد رکھنے کی اس کو ضرورت کہاں
ذرا پوچھ کہ جی کو بتلاو
روگ ہے عمر بھر کا یہ
کہا تھا دل سوچ کے لگاو
دروازہ کھلا رکھتے ہیں وہ
شاید بھول کے ہی تم آو