محبت
Poet: Jabbar Anjum By: Jabbar Anjum, Sialkotکہا اس نے محبت کر کے کیا محسوس ہوتا ہے
کہا میں نے کہ درد دل شفا محسوس ہوتا ہے
کہا اس نے کہ تنہا کس طرح سے دن گزرتے ہیں
کہا ویران راہوں پر اکیلے گھوم لیتا ہوں
کہا اس نے کبھی چوما ہے پھولوں کو عقیدت سے
کہا میں نے میں پلکوں سے بھی کانٹے چوم لیتا ہوں
کہا اس نے کہ میری سادگی نے مجھ کو لوٹا ہے
کہا الفت میں اکثر لوگ دھوکے کھا ہی جاتے ہیں
کہا اس نے تیری آنکھوں سے آنسو کیوں چھلکتے ہیں
کہا میں نے کناروں تک سمندر آ ہی جاتے ہیں
کہا اس نے محبت میں سنا ہے درد ملتے ہیں
کہا میں نے محبت سے دلوں کے پھول کھلتے ہیں
کہا اس نے گلے ملنا مجھے اچھا نہیں لگتا
کہا میں نے سمندر ساحلوں سے یوں ہی ملتے ہیں
کہا الفت کو دنیا نے صدا ناکام لکھا ہے
کہا اس نے کہ اہل دل نے اس کو جام لکھا ہے
کہا میں نے کہ جو لکھے تھے وہ سارے خط جلا دینا
کہا اس نے کہ سطروں میں تمہارا نام لکھا ہے
کہا میں نے تیری آنکھیں بڑی غمگین رہتی ہیں
کہا اس نے میرے دل میں کوئی ہل چل نہیں ہوتی
کہا میں نے میں صدیوں سے تمہاری راہ تکتا ہوں
کہا اس نے کہ خوشبو کی کوئی منزل نہیں ہوتی
کہا میں نے جز میرے کسی سے دل لگایا ہے
کہا اس نے محبت میں میرا توحید مسلک ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






