حسیں چہرے کسے اچھے نہیں لگتے
سو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں
مہکتے مسکراتے ناز پروردہ حسینوں کو
جنہیں قدرت بناتی ہے، کسی برفاب ساعت میں
مگر شعلے کی لو بھی رکھتی جاتی ہے،
لب و رخسار و قامت میں
سو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں
غزل گو یوں کے حلقے میں
کسی بزم تماشا میں
کسی شاز و سخن کے آستانے پر
عجائب گھر کے اندر یا کتب خانے کے زینے پر
کتابوں کی نمائش میں
پسِ محفل ، سرِرا ہے
وہ ان کا اک تعلق کی نظر سے دیکھ لینا
سر جھکا کا کر مسکرا دینا، ہمیں بھی اچھا لگتا ہے
پھر اس کے بعد دن بھر پا پیادہ چلتے رہنا
کس قدر آسان ہوتا ہے
ہمارے ساتھ بھی کتنے چھمیلے ہیں
جو اب تک ہم نے جھیلے ہیں
ہزاروں کام ہیں جو ختم ہونے میں نہیں آتے
مگر اے عمر ِ لا حاصل
میرے جینے کو تھوڑی سی جو ساعت رہ گئی ہے
گزر اوقات کی خاطر، یہ ساعت بھی ضروری ہے
ادھورے کام رہنے دے
محبت بھی ضروری ہے