محبت کی بھی جاتی ہے
۔ محبت ہو بھی جاتی ہے
کسی کی سوختہ کشتی
بھنور میں کھو بھی جاتی ہے
مگر یہ اک حقیقت ہے
محبت بس محبت ہے
محبت اک ریاضت ہے
محبت اک عبادت ہے
محبت جھک نہیں سکتی
یہ اک ایسی بغاوت ہے
یہ سونی راہگزاروں پر
بھی پیہم چلتی رہتی ہے
دلوں میں درد کی صورت
ہمیشہ پلتی رہتی ہے
نہیں کچھ بھی جہاں میں جو
محبت کر نہیں سکتی
وصل ہو یا غم ہجراں
محبت مر نہیں سکتی
محبت ریگزاروں کو بھی ذوق زندگی دے دے
محبت خاکساروں کو عروج بندگی دے دے
عیاں کر دے حقیقت چاند تاروں کی زمانے پر
اندھیرے میں امیدوں کی بھڑکتی روشنی دے دے
محبت ہی گلابوں میں
محبت ہی کتابوں میں
محبت تھل کی ریتوں پر
محبت ہی چنابوں میں
کبھی یہ نجد میں رقصاں
کبھی وارث کے خوابوں میں
کبھی پھولوں سے رستوں پر کبھی دریا کی مستی میں
کبھی بستی میں تنہائی کبھی تنہائی ہستی میں
کبھی سقراط کی صورت کبھی سرمد کے نعرے بھی
کبھی دیوار میں مدفن کبھی جمنا کنارے بھی
کبھی سیزر قلوپطرہ کے پر ہنگم فسانوں میں
کبھی شاعر کی نظموں میں کھی موسم کی تانوں میں
محبت زندگانی ہے
محبت جاودانی ہے
نہیں ہے انت ہی جس کا
یہ اک ایسی کہانی ہے
یہ جذبوں کی روانی ہے
سمے کی شادمانی ہے
جہاں کا ہر حسیں جذبہ
اسی کی مہربانی ہے
تو پھر مخمور آنکھوں سے پیام زندگی دے دو
میری صدیوں کی ظلمت کو م اپنی روشنی دے دو
گلابوں کا یہ موسم ہے
گلابوں کو ہنسی دے دو
نہیں کل کی خبر کوئی
یہ موسم آئے نہ آئے
یہ بادل برسیں نہ برسیں
یہ رم جھم چھائے نہ چھائے
ذرا ہاتھوں میں دے کر ہاتھ
انکو ہمسفر کر لیں
یہ لمحے بیت نہ جائیں
انہیں آؤ امر کر لیں