وہیں پہ منزلیں ہونگی ۔ وہیں غم کی سحر ہو گی
جہاں بھی حسن کے اس کارواں کی راہگزر ہو گی
کہاں کا ڈر اسے ویران رستوں کا ۔ مصائب کا
تمہاری یاد میری آرزو کی ہمسفر ہو گی
چلو پھر خلد میں ملنے کی ہی ترکیب کو جانچیں
وہاں پر زندگی سنتے ہیں یوں نہ مختصر ہو گی
تیرے لہجے کا دھیماپن ۔ میری وحشت یہ کہتی ہے
محبت جب کبھی ہو گی ۔ نہایت ٹوٹ کر ہو گی