محبت جس کی ذیادہ غم بھی اُسی کے،
یہی اُصول ہیں کم بخت زندگی کے،
کرو پیار کسی سے بھی دل ہی دل میں
راز بتانا نہ کسی کو بھی عاشقی کے،
پہلے جدائی پھر تنہائی اور پھر موت
حاصلِ محبت یہی ہے بس دل لگی کے،
مر گئے آج ترے فراق میں یم بھی
شکر ہیں ارمان پُورے ہو ئے سبھی کے،
گلے لگایا اُسے بڑے مان بڑے چاہو سے
دم ہی ڈبا دیئے اُس نے ہم ہی کے،
غیروں کے سنگ ہنستے رہے وہ مدِ نظر
نہ کچھ کر سکے حالات یہ ہیں بے بسی کے،
کر دیا بدنام شہر والوں نے ہمیں
اگرچہ چرچے تھے کبھی ہماری سادگی کے،
تجھے بھُلانے کی کوششوں میں سنگدل
ہم انداز بھُول گئے اپنی زندگی کے،
مجھے کون اپنائے گا ترے جانے کے بعد
کون کرئے گا پورے حصے تیری کمی کے،
محبت میں ناکامیاں جب ملے گی تجھے
سیکھ جائو گے خود ہی ہنر شاعری کے،
ملے فرصت تو کسی دن آ جانا نہال
گِنے گے بیٹھ کے درد و غم عاشقی کے،