محبت دو گی کیا مجھ کو ؟
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistanخیالوں میں کوئی نذدیک بھی تو
آ ہی جاتا ہے
تصور میں کسی کو پیار کرنا
کیا عجب جانم !
ضروری تو نہیں چہروں سے
رکھتے ہوں شناسائی
ملاقاتیں ہوں
باتیں ہوں
بسر اک ساتھ راتیں ہوں
محبت دور رہ کے بھی کسی سے
ہو ہی جاتی ہے
ہوائیں جنگلوں سے ہو کے
صحراؤں پہ چلتی ہیں
سمندر پار جا کر بھی کہیں
باد برستے ہیں
جوانی اور دولت پیار کی خاطر
نہیں لازم
محبت رنگ و ملت دیکھتی ہے
اور نہ مسلک
کسی بھی عمر میں ہو جائے
اس کو روکنا مشکل
کسی سےکس لیے ہو جائے
اس کا جاننا مشکل
کبھی خاموشیاں بھی گیت بن کے
دل لبھاتی ہیں
کبھی الفاظ کے غنچے مہکتے ہیں
تصور میں
کبھی سوچوں کی کلیاں دور تک
خوشبو پھیلاتی ہیں
کبھی چند ان کہی باتیں
بہت کچھ کہہ بھی دیتی ہیں
ہاں وہ باتیں
جو سلگاتی ہیں تن من کو
خموشی سے
مگر لاوے کی مانند ایک دن
سب پھوٹ پڑتی ہیں
محبت خود کو منواتی ہے اور
اظہار کرتی ہے
ہمیشہ کے لیے لب سی کے رہنا
ہے بہت مشکل
محبت خود کو سینے میں مقید
رکھ نہیں سکتی
وہ لمحہ آ گیا کہ راز الفت
تم سے کہہ ڈالوں
سنو دل تھام کے وہ بات
جو پہلے نہ کہہ پایا
وہی اک بات کہ جانم !
میں تم سے پیار کرتا ہوں
میں اپنے پیار کا اب برملا
اظہار کرتا ہوں
مرے اقرار سے لیکن کہیں
ناراض نہ ہونا
محض اس بات پر
نظروں سے مجھ کو نہ گرا دینا
اگر ممکن ہو چند لفظوں میں
بس اتنا بتا دینا
محبت کے صلے میں تم
محبت دو گی کیا مجھ کو ؟
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






