محبت میں لوح و قلم رو رہے ہیں
دیوانو! کہ دیر و حرم رو رہے ہیں
سکوں تو ملا آج روحوں کو لیکن
وہ رکھ کر وفا کو بھرم رو رہے ہیں
یہاں رو رہے ہیں ستم سہنے والے
وہاں خود وہ کر کے ستم رو رہے ہیں
ہمیں اس جہاں سے نہیں کوئی شکوہ
کرم ہے صنم کا جو ہم رو رہے ہیں
تمہیں اس جدائی کا شاید کہ غم ہو
یہ نَینا مِرے دم بدم رو رہے ہیں
جنہیں کچھ بھروسہ نہیں ہے وفا پر
وہ ساتوں کے ساتوں جنم رو رہے ہیں
مصیبت کے مارے تو روتے ہیں اکثر
نا جانے کیوں اہلِ کرم رو رہے ہیں
غمِ جعفری پڑھ لیا جب سے مَیں نے
مِرے دیدہ و دل صنم رو رہے ہیں