یہ روز و شب کی مسافت نڈھال کر دے گی
دلوں میں بسنے کی عادت نڈھال کر دے گی
ہاں پہلے پہل ہواؤں میں لے اُڑے گی یہی
پھر ایک روز محبت نڈھال کر دے گی
بجا کہ قرب کی گھڑیاں ہیں دلفریب مگر
بچھڑ کے جانے کی ساعت نڈھال کر دے گی
وہ مہرباں جو تمہیں اپنی جان بولتا ہے
اسی کی نظر حقارت نڈھال کر دے گی
خیال و خواب کی دنیا سے ایک پل کے لیے
نکل کے دیکھو حقیقت نڈھال کر دے گی
علم اُٹھایا ہے یہ جانتے ہوئے ساحل
کہ مار دے گی بغاوت نڈھال کر دے گی