محبت پھر محبت ہے
کبھی دل سے نہیں جاتی
ہزاروں رنگ ہیں اس کے
عجب ہی ڈھنگ ہیں اس کے
کبھی صحرا کبھی دریا کبھی آنسو
ہزاروں روپ رکھتی ہے
بدن جھلسا کے جو رکھ دے کبھی و ہ دھوپ
رکھتی ہے
کبھی بن کے وہ اک جگنو شب غم کے
اندھیروں میں
دلوں کو آس دیتی ہے
کناروں پر یہ صدیوں کے مسافر کو
فقط اک پیاس دیتی ہے
اذیت ہی اذیت ہے
محبت پھر محبت ہے