محبت چھوڑ دی ہم نے
Poet: محمد فیضان منغض By: muhammad faizan munghiz, jhelumتمہی سے تنگ آ کر پھر
محبت چھوڑ دی ہم نے
اور بھی بہت کچھ چھوڑا
شوخی کو شرارت کو
محبت کو عنایت کو
عداوت کو شکایت کو
جفا کو بھی وفا کو بھی
محبت بھی ریا کو بھی
اپنی ہر ادا کو بھی
جفاوں کو وفاوں کو خطاوں کو سزاوں کو
محبت کے خسارے کو
سمندر کے کنارے کو
ہر اپنے پیارے کو
بہاروں پر یقیں چھوڑا
پیاروں پر یقیں چھوڑا
سہاروں پر یقیں چھوڑا
رسم جفا چھوڑی
مانگی ہر دعا چھوڑی
کہا نا ہر ادا چھوڑی
اگر تم پوچھتے ہو کہ
ہمیں اس سے کیا ملتا
بہت ہی فائدہ ملتا
سکوں ملتا وفا رہتی
امیدیں دیر پا رہتی
جفا مٹتی وفا رہتی
نہ رنج آہ و رسا کرتا
نہ غم تیری دعا کرتا
نہ لمحوں میں خطا کرتا
خوش رہتے خرم رہتے
دور تم الم رہتے
نہ تم راتوں کو نم رہتے
یہی فائدے ہوتے ہیں
اگر تم عشق نہ کرتے
تمہاری عقل نہ مرتی
کسی سے عشق نہ کرتی
تمہاری آنکھ نہ بھرتی
اگر نہ چھوڑتا میں تو
وفاوں کا صلہ ملتا
محبت کا دیا ملتا
تجھے کچھ تو برا ملتا
یا اس کے سوا ملتا
خدا جانے کیا ملتا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






