محبت کا ارادہ کر لیا جائے
ذرا دل کو کشادہ کر لیا جائے
پڑا برسوں سے ہے بے کار دل اپنا
کہو تو استفادہ کر لیا جائے
اگر کم ہو، تو مے میں کیا مزہ ساقی
اسے کچھ اور زیادہ کر لیا جائے
نبھانا ہوگا ممکن تو نبھا لیں گے
ابھی رسماً ہی وعدہ کر لیا جائے
کہاں بھولے ہیں لذت وصل کی جاناں
مگر پھر بھی اعادہ کر لیا جائے
کرو ہمت تو مشکل کچھ نہیں اظہر
مصمم بس ارادہ کر لیا جائے