محبت کی انتہا
Poet: سردار کاشی By: Abdul Jabbar Larik, abduljabbar123کوئی ایسا جادو ٹونہ کر
مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو
یوں الٹ پلٹ کر گردش کی
میں شمع، وہ پروانہ ہو
زرا دیکھ کے چال ستاروں کی
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ
جو کر دے بخت سکندر سا
کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر
کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے
کوئی ایسا دے تعویز مجھے
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے
کوئی فال نکال کرشمہ گر
مری راہ میں پھول گلاب آئیں
کوئی پانی پھونک کے دے ایسا
وہ پئے تو میرے خواب آئیں
کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن
وہ کہے مبارک جلدی آ
اب جیا نہ جائے تیرے بن
کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے
جس رہ سے وہ دلدار ملے
کوئی تسبیح دم درود بتا
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
کوئی قابو کر بے قابو جن
کوئی سانپ نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اکشا دھاری سے
کوئی ایسا بول سکھا دے نا
وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے
وہ جانے ، جان نثار ہوں میں
کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں
جو مرضی میرے یار کی ہے
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں
کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ
جو اشک بہا دے سجدوں میں
اور جیسے تیرا دعوی ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں
پر عامل رک، اک بات کہوں
یہ قدموں والی بات ہے کیا؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا
اور عامل سن یہ کام بدل
یہ کام بہت نقصان کا ہے
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں
جو مالک کل جہان کا ہے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






