یوسف کی کہانی کچھ اسکی، کچھ میری زبانی
سوری کہوں گا، گرخطا ہو جائے یا ہو نادانی
اک شام سہانی تھی، اور چڑھتی جوانی تھی
چڑھا میں چھت پہ، نظر جو سامنے جانی تھی
دیکھا چہرہ ماہتاب کا، آنکھیں میری چندھیا گئیں
نہ ٹال سکا نینوں کے تیر، آنکھیں میری پتھرا گئیں
وہ شاہکارحسن تھا، مجھے طلبگار حسن بنا گیا
میرے دل کی وادیوں میں چراغ محبت جلا گیا
میں اسکی زلفوں کا اسیر، وہ میرے پیار کا سفیر تھا
محبت کی پرواز تھی، جنون کا لفظ شاید حقیر تھا
ڈوبے محبت کے سمندرمیں تو ڈوبتے ہی چلے گئے
کبھی لاہور، کبھی مری، کبھی قصور ہی چلے گئے
دیواروں کے سوراخوں سے کبھی نامہ بر بھیجا
کبھی مٹھائی کے ڈبوں میں گفٹ پیک کر بھیجا
محبت کا سفر تھا، راہوں میں بچھے تھے خار
زمانہ دشمن تھا، سجن تھے بس کوئی دو چار
زمانے نے ستم پہ ستم جب ہم پے گرایا
اسے محبت کا اصول پھر ہم نے سکھایا
جاوید تجھے پتہ کیا ہے تو ہے بے خبر
محبت کی چوٹی کو کیسے کیا ہم نے سر