تجھے یاد کرتے کرتے جاناں
میری آنکھیں بھر آئی ہے اکثر
صرف تیری خوشی کی خاطر
میں نے اپنی خواہش دبائی ہے اکثر
تجھے تو کبھی خبر ہی نا ہو سکی
ہر شب نے مجھ پر قیامت ڈھائی ہے اکثر
اب کس سے کروں حال بیاں
کے روح اپنوں نے ہی ستائی ہے اکثر
نا توں غلط ہے اور نا ہی میں غلط
مگر میرے ہی حصے جدائی آئی ہے اکثر
دنیا کے طعنے کب تک ساہوں میں
تیرا نام لے کر پائی رسوائی ہے اکثر
لکی ! یہ کاغذ لہولہاں کیسے ہو گیا
میں نے تو قلم میں ڈالی سیاہی ہے اکثر
توں مجبور ہے یا میری تقدیر ہی ایسی
محبت کے بدلے نفرت پائی ہے اکث