کبھی پر آگہی لمحوں کو چھو کر میں بھی گزرا تھا
تمہاری ریشمی زلفوں کو چھو کر میں بھی گزرا تھا
تعجب کیا اگر تعبیر گا ہوں میں طلاطم ہے
محبت کے حسیں خوابوں کو چھو کر میں بھی گزرا تھا
اے میرے ہمنوا مجھ سے چھپا نہ وقت کے معنی
ٹھہرتی سہمتی سانسوں کو چھو کر میں بھی گزرا تھا
وہاں مدفون تھیں خاموش آوازیں محبت کی
شہر کی اونچی دیواروں کو چھو کر میں بھی گزرا تھا
تو پھر یوں ہے کہ تم بھی شوق کی معراج کو چھو لو
اجالوں سے بھری یادوں کو چھو کرمیں بھی گزرا تھا
مجھے واعظ سکھا نہ اتنے بھی آداب محفل کے
خلد کے نازنیں رازوں کو چھو کر میں بھی گزرا تھا
مجھے لگتا ہے غزل فیض میں میرا بھی حصہ ہے
شب وحشت میں ان لفظوں کو چھو کر میں بھی گزرا تھا