محبت کے خیالوں کی خوشی معلوم ہوتی ہے
جنوں کے رنگ میں بھی دل لگی معلوم ہوتی ہے
ترا در چھوڑ دیتی ہوں، مگر اتنی دعا کرنا
مرا احساس ہے یہ سادگی معلوم ہوتی ہے
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کی ہو نہیں سکتی
فقط اتنا کہو گی بے بسی معلوم ہوتی ہے
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
پیوں اک جام غم یا بے خودی معلوم ہوتی ہے
وہ سایہ اٹھ گیا ہے اپنے سر سے دھوپ نگری میں
کہ ساری زندگی ہی بے کسی معلوم ہوتی ہے
کچھ ایسی رنج و غم کی داستاں معلوم ہوتی ہے
حیاتِ مختصر بھی بندگی معلوم ہوتی ہے
یقیناً ترک کردوں گی میں یوں آشفتہ سر پھرنا
مگر یہ تب ہی وشمہ عاشقی معلوم ہوتی ہے