محبتوں میں وفا کا حِساب کیا رکھنا
کِسی کِتاب میں سوُکھے گلاُب کیا رکھنا
وہ کم سخن تو نہیں ہیں مگر یہ سوچا ہے
کہ سلسلۂ سوال و جواب کیا رکھنا
وہ میرے حال سے اچھی طرح سے واقف ہیں
پھر اُن کے سامنے دِل کی کِتاب کیا رکھنا
نہیں ہے داغ کویٔ گر ہمارے دامن پر
تو پھر یہ فکرِ عذاب و ثواب کیا رکھنا
پلٹ کے بیتے ہوۓ دِن کبھی نہیں آتے
گیا شباب تو یادِ شباب کیا رکھنا
حجاب غیر سے رکھنا سمجھ میں آ تا ہے
نہیں وہ غیر تو اُن سے حجاب کیا رکھنا
ہمارے دِل میں تو دریا بسا ہے جہلم کا
نظر میں راوی و ستلج ، چناب کیا رکھنا