جب شام ڈھلتی ہے، تاریکی پھیلتی ہے
پھر رات ہوتی ہے، دنیا سوتی ہے
ہر اک مجنوں بے خبر سو جاتا ہے
سناٹا چھاتا ہے، ہر سو کو کو ہوتی ہے
میرے دل میں اک غبار سا اٹھتا ہے
تیری یادوں کی یاد، میرے ساتھ ہوتی ہے
کروٹوں میں ہو جاتی ہے شب تمام
محبوب کے آنے کی آس جو ہوتی ہے
پھیلنے لگتا ہے صبح صادق کا اجالا جب
تیرے آنے کی امید پھر دم توڑتی ہے
جاوید! فراق کے ماروں کا اصول ہے یہی
محبوب کی یاد، انکی یادوں میں ہوتی ہے