محبّت اک فسانہ ہے
Poet: عمیر اکبر By: umair Akbar tabish , Rawalpindiمحبّت اک فسانہ ہے
اک اپنا بیگانہ ہے
کسی کو کھو کر پایا تو
کسی کو پا کر کھونا ہے
کسی کے خواب میں کوئی
کسی کے خیال میں کوئی
محبّت اک دھوکھا ہے جوکھا کر
میں نے سوچا ہے
محبت اک فسانہ ہے
کوئی اپنا بیگانہ ہے
خواب ایسا کے پلکوں پر ستاروں کو سجانے کا
خواب ایسا کے صحرا پر گلشن کو سجانے کا
سمندر کی لہروں پہ گھروندا اک بنانے کا
جسے چاہا اسے ہی بس نصیب اپنا بنانے کا
کیا کوئی کھلونا ہے ؟
جسے آسان ہو پانا ؟
ارے پاگل نہیں آساں کسی کو ٹوٹ کر چاہنا
میں نے اک بار چاہا تھا مگر ہمت نہیں ہوتی
کسی کو پھر سے چاہنے کی
محبّت پھر سے کرنے کی
کوئی ارمان جگانے کی
کوئی امید بھجانے کی
کوئی بھی اب تو مل جاۓ
وہ تو مل نہیں سکتی
میں سب یادیں بھلا دوں گا
سبھی وہ خط جلا دوں گا
سبھی ماضی بھلا دوں گا
ارے جینا بھی تو ہے تو پھر جی کر دیکھا دوں گا
شادی بھی تو کرنی ہے کوئی لڑکی بھی مل جاۓ
یہ دستو ر زمانہ ہے جینا اک بہانہ ہے
قبول کرنا ہی پڑتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ چلتے
محبّت خود فسانہ بن ہی جاتی ہے
نہیں یقین تو کر لینا
لوٹ کر کبھی آؤ
جو تابش کو یہاں پاؤ
دوبارہ اس کو پڑھ لینا
محبّت اک فسانہ ہے
اک اپنا بیگانہ ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






