محفل میں جانے کیسے سر عام آ گیا
آخر زباں پہ اس کے مرا نام آ گیا
میں نے چھپا کے رکھا تھا جو دل میں راز عشق
خط میں قبول لکھ کے وہ پیغام آ گیا
کیسے کہوں فلک میں تجھے کتنا خوش ہوں آج
یہ دیکھ لے دعاؤں کا انعام آ گیا
ساقی سے آنکھوں آنکھوں میں خالی اشارتاً
کہنے کی دیر تھی کہ بھرا جام آ گیا
قاتل کا پردہ فاش کیا جبکہ میں نے خود
مجھ پر ہی حیف قتل کا الزام آ گیا
اب کچھ نہ ہوگا جاگ کے غفلت کی نیند سے
سورج غروب ہونے لب بام آ گیا
صیاد کے بغیر معالےؔ نہ رہ سکا
گھر لوٹ کر پرندہ سر شام آ گیا