محفلوں سے رہا ہوئے اب تنہائی سے ضمانت نہیں ہوتی
تقدیروں کا یہ بھروسہ کہ زندگی بھی سلامت نہیں ہوتی
یوں تو لفظوں کی ملامت بُری گت کردیتی ہے دل کو
سب اندر کے جوہر ہیں باہر کوئی علامت نہیں ہوتی
ارادوں کی قلت نے قدموں کو کب سے لغام دے رکھا ہے
اُسی ہی دروغ سے اپنی ترقی میں قدامت نہیں ہوتی
انجاں تصوروں میں ڈوبے تو پھر کنارہ کہاں ملا
بشر کو جب عادتیں محتاج کردیں تو نَدامَت نہیں ہوتی
قابل تعمیل سے دیکھو ہر چیز اپنی فضیلت سے شاہکار ہے
کیا کریں حق ادا کرنے تک یہ زندگی امانت نہیں ہوتی
میں فقط اپنے استقلال سے مستقل کی طرف چل رہا ہوں
خوامخواہ الجھنوں سے اتنا لڑنے کی ذلالت نہیں ہوتی