مدام تیرے ، ہم ایسے زیرِ دام رہے
بنا کرم، کسی الطاف ، تیرے نام رہے
ہوائیں یوں بھی کسی کا بھرم نہیں رکھتیں
دئیے جلیں گے وہی جن کا فیض عام رہے
ہم ایسے خستہ تنوں کا بھرم رہے قائم
بحال میکدہ ، پیاسا اگر نہ جام رہے
یہ معجزہ تری قربت کا ، کج کلاہوں نے
جہاں پہ راج کیا اور ترے غلام رہے
عنایت اُن کی بیاں کیا کریں یہی سمجھو
کہ یاریاں تھیں سمندر سے اور تشنہ کام رہے