مرا اب وہ رہا سجنا نہیں ہے
مری اب کال وہ سنتا نہیں ہے
ہوا جو ہے مقدر میں لکھا تھا
کسی سے اب کوئی شکوہ نہیں ہے
بتاؤ کیسے کس وہ حال میں ہے
مرا اب رابطہ ہوتا نہیں ہے
نئے دیتے ہو آئے روز وعدے
کبھی پورا کیا وعدہ نہیں ہے
تجارت میں خسارہ ہو گیا ہے
ہوا پورا مرا خرچا نہیِں ہے
کی ہے کوشش نہیں وہ بھول پایا
تلاظم پیار کا لوٹا نہیں ہے
بھلا شہزاد اس نے سب دیا ہے
مجھے وہ پیار اب کرتا نہیں ہے