وفا کی آخری حد کو
ہم تم
کیوں نہ سر کر لیں
جفاؤں کو وفائیں دیں
وفاؤں کو ثمر کر لیں
تمہیں مجھ سے
مجھے تجھ سے
نہ راعی بھر شکایت ہو
مثالوں میں نہ مل پاۓ
ہمیں ایسی محبت ہو
مری آنکھیں ترے غم میں
کچھ ایسے درد سے برسیں
کہ خود ساون بھی کہہ اٹھے
یہ آنسو ہیں یا جھرنے ہیں ؟
بڑی سوغات دی ہم کو
یہ کس نے مات دی ہمکو
مرے دکھ میں
ترے دل سے
کچھ ایسے آہ نکل جاۓ
کہ پتھر بھی پگھل جاۓ
مرا اک خواب ہے جاناں
وفا کا تذکرہ جب ہو
ہمارا نام بھی آۓ
دلائل دینے والے سب
ہمیں ہی محترم جانیں
کچھ ایسے وقف چاہت میں
یہ اپنی ذات ہو جاۓ
ہمارانام آنے پر
جفا کو مات ہو جاۓ
مرا اک خواب ہے جاناں
مرا اک خواب ہے جاناں