جو اک خواہش سی باقی ہے اسے معدوم نہ کرنا
ہواؤں سے کبھی میرا پتہ معلوم نہ کرنا
مجھے اس زندگانی سے ذرا سا مل تو لینے دو
مری آزاد سوچوں کو ابھی محکوم نہ کرنا
مری باتوں میں اکثر تلخیاں ہوتی ہیں ماضی کی
انہیں تم ریشمی الفاظ میں منظوم نہ کرنا
مرا جب ذکر ہو تو بات کا پہلو بدل دینا
سر محفل تم اپنے آپ کو مغموم نہ کرنا
حرارت سے انہی کی آرزو کے دیپ جلتے ہیں
مجھے اپنے اجالوں سے کبھی محروم نہ کرنا
بھلے جانو خرد مندی کے ہر اسلوب کے معنی
نگاہوں سے مرادیوانہ پن مو ہوم نہ کر نا
بدن میں آگ سی لگ جائے گی معصوم پھولوں کے
بیاں ابکے بہاروں سے مرا مفہوم نہ کرنا