اب ہیں خزاں کے ڈیرے گلشن کی تازگی میں
مرجھا گئے ہیں غنچے تتلی کی عاشقی میں
اس ظاہری محبت ، دو دن کی زندگی میں
ہم نے لٹا دیں خوشیاں دیکھو خوشی خوشی میں
اب کیا خوشی سے جھومیں ، اب کیسے مسکرائیں
اس کا نہیں گزر اب دل کی مری گلی میں
نوکِ سناں پہ بھی سر جھکنے نہیں ہے پایا
اندازِ فاتحانہ دیکھا ہے رہبری میں
جب پانیوں کے اوپر لکھے وفا کے قصے
پھر کیسے ڈھونڈ پائیں اخلاص دلبری میں
یہ آنگ سان سوچی برما کی خاک چاٹے
ہو یہ ذلیل و رسوا دنیا کی ہر گلی میں
چہرے پہ لے کے چہرہ میک اپ زدہ جہاں میں
جینا ہی چھن گیا ہے وشمہ جی سادگی میں