مردہ ہیں دل ہر آنکھ میں برسوں کے رت جگے
اس شہر خواب کش میں کوئی کس طرح جیئے
برسوں سے انتظار کبھی اس چمن میں بھی
آئے کبھی بہار کبھی پھول بھی کھلے
ہے عشق بھوگ جھیلتے رہنے کا نام ہے
کیسی نوازشیں بھلا کس بات کے صلے
اک خواب کہ سمایا رگ جاں میں آج بھی
گم گشتہ راستوں پہ میرے ساتھ وہ چلے
دیکھا جو ہم نے عشق مجسم یہ حال تھا
تن کا لباس اترا ہوا، ہونٹ تھے سلے
ترک تعلقات کا اک فائدہ ہوا
اب وہ شکائتیں رہیں نہ ہی رہے گلے
رہیے تو ساتھ ساتھ مگر دل نہ مل سکیں
وامق ہم ایسے قرب سے تو دور ہی بھلے