مرکز سے ہو کے جدا کہا حوش رہا ہے کوئی مہبتوں کا الگ ہے نشہ پنپتا ہے نفرتوں کا جہاں کوئی دواؤں میں ہیں اثر بہت جانتا ہے کہا کوئی زندگی کی بساط پر چلنا ہے آساں کوئی داغ ے فراق دے کر ممطمین ہے کہاں کوئی