مرکے وِصال ہوتا تو مر ہی لیتے تھوڑے دن
اُن کے بھی تجاوز سے مل ہی لیتے تھوڑے دن
یوں وسعت میں تو سب شوخ ہیں آنکھیں
اپنے مزاج سے وہ مئکدے پیء بھی لیتے تھوڑے دن
کیا خبر تھی کہ اپنے گھر بھی فرضی نکلیں گے
ورنہ وہ پرایا مکان لے بھی لیتے تھوڑے دن
اِن زرگروں نے بڑا باطل رکھا نہیں تو
منسوُخ زخموں کو سیء بھی لیتے تھوڑے دن
بے جا خیالوں نے اڑان بھرتے نہیں سوچا کہ
منزل کی اُن راہوں پہ چل ہی لیتے تھوڑے دن
زندگی کی ذلالت ہمگیر تھی مجھ سے سنتوشؔ
ورنہ موت کی امید پہ جیء بھی لیتے تھوڑے دن