مری آنکھوں میں بھی کچھ خواب ادھورے رہ گئے ہیں
تمھارے ہم نہیں، وہ جب سے ہم سے کہہ گئے ہیں
حساب الفت کے گو سارے ہی چکتا ہو گئے ہیں
مگر ہم امتحاں میں خون ہو کر بہہ گئے ہیں
خیال آتا ہے اُن کو وہ غلط کرتے رہے ہیں
ہم اُن کے سب ستم خاموش ہو کر سہہ گئے ہیں
عروج الفت کا پانے کے لیے عاشق تمھارے
اتر الفت کے سب صحرا میں تہہ بہ تہہ گئے ہیں
ترے عشّاق کی راہیں نہ روشن ہوں گی کیوں کر؟
اتار اپنی نظر میں وہ زمیں کا مہ گئے ہیں؟