مرے دل کی زمیں پیاسی، سنو بارش کبھی برسو
مری تسکیں، مری حسرت، مری خواہش کبھی برسو
عجب سی سرد مہری کی فضا ہے حبس کی صورت
ستم کردو، کرم کر دو، مٹے رنجش کبھی برسو
جبینِ خاک کے ذرات پر لکھی ہے محرومی
یہ مُسکائیں، یہ اِترائیں، بصد نازش کبھی برسو
ہو جیسے اُجڑی اجڑی مانگ ہر شاخِ شجر یُوں ہے
یہ پتے سبز ہوں سامانِ زیبائش کبھی برسو
جب اپنی موج میں ہوتے ہو تو کھل کر برستے ہو
سنو ابرِ سکوں پروَر ! بفرمائش کبھی برسو
گُھٹن میں سانس لینا اب، بہت دشوار ہے عاشی
ملے کچھ پل مری سانسوں کو آسائش کبھی برسو