نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر نہیں آیا
مرے مکاں میں وہ دیوار و در نہیں آیا
کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی
کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر نہیں آیا
وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال
کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر نہیں آیا
میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتی ہوں
وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا لمحہ بھر نہیں آیا
ذرا سا نکلے تو یہ شہر الٹ پلٹ جائے
وہ اپنے گھر میں بہت ہی بے ضر نہیں آیا
بلا رہا تھا وہ دریا کے پار سے اک دن
جبھی سے پاؤں میں میرے بھنور نہیں آیا
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتی ہوں
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر نہیں آتا
چلو وشمہ ذرا کچھ علاج جاں کر لیں
یہیں کہیں پہ کوئی چارہ گر نہیں آیا