سبب اس کا کچھ بھی ہو سہی لیکن
تیرے رخسار میں ایسی کچھ بات تو ہے
سرخیے گلاب ہی نہیں اس میں لیکن
رنگ شادابیے حسن اور شباب بھی ہے
روز آتے ہیں تیری دید کو مسافر حسن
آخر یہ حسن کامل اک سوغات تو ہے
کتنے آتے ہیں دیکھ چلے جاتے ہیں
یہ بتا تیرے کہیں کچھ حساب بھی ہے
نگری نگری گاؤں گاؤں ڈھونڈ پھرے
اور تو کچھ بھی نہیں اک تیری ذات تو ہے
ہم کو دنیا میں حسن ملا نا کہیں
چھانی ہر اک تحریر اور ہر کتاب بھی ہے
دمبخود ہوتے ہیں کیوں دیکھ تجھے رہ گزر
بتکدوں میں بڑا ذکر لات اور منات تو ہے
ہم نے پوچھا بہت سوں سے جواب اسکا
ایسا کیا ہے جو تیرا حسن لاجواب بھی ہے
جھیلتے کیوں ہیں لوگ صعوبت حسن و عشق
اس میں تیری شوخی کا بھی کچھ ہاتھ تو ہے
اظہر بھی دیوانوں کی قطاروں میں پھرا کرتا ہے
اس میں راحت ہے بڑی اور کچھ عذاب بھی ہے