مسحور نگاہوں سے پیاسوں کی گلی دیکھی
پانی کے کٹورے میں موتی کی لڑی دیکھی
بادل کو ہواؤں کے ہونٹوں سے لگا دیکھا
ہر دشت کے سینے میں اک آگ لگی ہے
سورج نے تبسم سے محروم کیا جس کو
خوبواں کے گلستاں میں کھلتی وہ گلی دیکھی
تہزیب وتمدن کے آثار نظر آئے
پھر دل نے کوئی بستی یادوں سے بسی دیکھی
تم کو ہی عزیزوں کی پہچان نہیں شاہد
ہم نے یہاں دنیا اپنوں سے بھری دیکھی
رہ رہ کے شناور سب مایوس چلے آئے
جزبات میں پھر بہہ کر ہم نے وہ ندی دیکھی
تجھ میں تجھے دیکھا ہے ،خود میں بھی تجھے دیکھا
ہم نے تو ہمیشہ سے اپنی ہی کمی دیکھی