مسلسل عشق میں فقط ناکامیاں ہی ملی ہیں
محبت کے نام پہ مجھے رسوائیاں ہی ملی ہیں
تمنا جب بھی کی، شب ضفاف کی میں نے
چاروں طرف ہجر کی تنہائیاں ہی ملی ہیں
انکے انتظار کا موسم جانے کیوں بڑھتا ہی جارہا ہے
دیدار یار کی چاہ میں انتظار کی گھڑیاں ہی ملی ہیں
کاش وہ کہیں سے آ کے مرے تڑپتے دل پہ ہاتھ رکھ دے
اسی اک خواہش کے بدلے محبت کی خاموشیاں ہی ملی ہیں
اے طبیب بتا مرا مرض قریب المرگ ہے کہ نہیں
سفر حیات میں مسلسل عشق کی جدائیاں ہی ملی ہیں