نگاہوں سے ملا کر نگاہیں مسکرانا پڑا ہو
کبھی اپنی تمناؤں کا محل جو جلانا پڑا ہو
پڑھا ہو جو مدت تک اک سبق اُسکی نگاہوں سے
نہ چاہتے ہوئے بھی وہ درس بھول جانا پڑا ہو
تجھے پوچھوں بتا پھر اب کیا گزری تیرے دل پر
چھلکتی آنکھوں میں جو آنسو چھپانا پڑا ہو
رات گزری ہو جس کے ہجر میں کئی سالوں کی طرح
صبح کو پھر چھوڑ کر اس کو گزر جانا پڑا ہو
اُس شخص سے پوچھ ساجد دردِ بے بسی کیا ہے
سبھی کچھ کھو کر جسے خود کو سمجھانا پڑا ہو