آنکھوں نے دل کو ہنر یہ سکھایا
بلندی پہ تھا جو پست آیا
جزوئے قلب سے امیدیں بہت تھی
چلے جب وہ پیچھے اسکو نہ پایا
نگار چمن سے وہ بے خبر گزرا
بھیجا تھا جسکو بہت دیر لایا
لگا رونے وہ بے سود بیٹھا
بلبل نے باغباں کو یہ قصہ سنایا
شکایت لگائی ستاروں نے صبح سے
مشکل سے دن نے شب کو منایا
دل مٹی کے گھر مے تھا مغرور بیٹھا رضا
سو جس نے بنایا اسی نے گرایا