مطلب ہے ان کو آج بھی خوشیوں کے جام سے
رکھتے ہیں ہم تو غم بھی مگر اہتمام سے
پھیلی ہوئی ہے چار سو بے چینیوں کی بھیڑ
شاید وہ لوٹ آئیں کہ بیٹھے ہیں شام سے
تنہائیاں رفیق رہی ہیں تمام عمر
لپٹا ہوا ہے وقت بھی اپنے نظام سے
تم ہو ہماری سوچ سے آگے کا سلسلہ
تم بادشاہ ہو لیک ہیں ہم تو غلام سے
یہ داستان کرب کا دیکھا ہے معجزہ
لگتے ہیں یا حسین کے ہم بھی غلام سے
اس کو ملا ہے پیار بھی ، دولت بھی ، جام بھی
جس کا پڑا ہے واسطہ وشمہ کے نام سے