معشوق سی کویٔ میر ے پاے ٔ نظر کہاں
اب ہم ہیں متمعین کے بنایٔنگے گھر کہاں
جب بھی نگاہِ شوق اُٹھایٔ جدھر جہاں
آیٔ نظر تھی توُ ہی پر آیٔ نظر کہاں
چاہا بہت یہ ہمنے نگاہوں سے کچھ کہیںٔ
پر جانتا ہی میں تھا زبانِ نظر کہاں
اُلفت کی شمع میں نے جلا لی تو ہے مگر
شعلوں پہ ہوگا چلنا یہ جانا مگر کہاں
چاہا بہت کے عشق کی وادی کو چھوڑ دؤں
پر عشق کو میں چھوڑنے جاؤں کدھر کہاں
گردش کو تو قسمت میں ہی لکھوا چکا ہو ں میں
بچنے کو اِس سے اور میں کرتا سفر کہاں
مانا کہ تم سے عشق کیا بھو ل ہو گیٔ
پر تم نے بھی ستانے میں رکھّی کسر کہاں
منزل کی چاہ میں تو چلے جا ر ہے ہیں ہم
پر دیکھے ٔ کہ ہوتا ہے ختمِ سفر کہاں
کہتے ہیں لوگ مجھکو کہ دیوانہ ہو گیا
پر اب مجھے ہی میری بھلا ہے خبر کہاں
گم نام اندھیروں میں میں ٔ بد نام ہو گیا
پر جانے کس نے کسکو بتایا کدھر کہاں
کیسے یقین کر لوں کہ تم بے وفا نہ تھے
ایک بار بھی تو تم بھلا آے ٔ اِدھر کہاں
اب چاہتا ہوں عشق کی وادی کو چھوڑ دوں
مچھلی ہوں پانی چھوڑ کے جاؤں مگر کہاں
جانے کو میں دنیا سے ہوں بے چین اسلیے
رہنے کو کویٔ بھی ہے بچا اب شہر کہاں
رہنے کو نشمین کی ضرورت سبھی کو ہے
پر ہے کسی کے پاس میرے جیسا گھر کہاں
بے با ک نگاہوں کی بے چو ک نظر سے
میں بچ کے نکل جاؤ ں ہے ایسی سپر کہاں
اے کلک روک جا تو وہی اصغرؔ کے ہاتھ میں
اب تیری زباں میں بھی رہا وہ اسر کہاں