مقابر کو ہم آباد نہیں کرتے ہیں
راہ سے جو پلٹ جائیں ان کو یاد نہیں کرتے ہیں
میں ہوں اور یہ سرما کی تاریکی میں ترا خیال
بے آب وگیاہ وادیاں ویران نہیں کرتے ہیں
تیرا خیال بھی اب تو سکوں نہیں دیتا
تنہائیاں، خاموشیاں برباد نہیں کرتے ہیں
میں غم سے آشنا کیوں کر، اس کا غم نہیں
سکوں کے پل بے مزہ نہیں کرتے ہیں
کوئی تو ہو جو کہ دے حرف ناصح چپکے سے
بے مائیگیء وجود سے خود کو بہلایا نہیں کرتے ہیں